مالک ارض وسما نے جب انسان کو منصب خلافت دے کر زمین پر اتارا تواسے رہنمائی کے لیے ایک مکمل ضابطۂ حیات سے بھی نوازا۔ شروع سے لے کر آج تک یہ دین‘ دین اسلام ہی ہے۔ اس کی تعلیمات کو روئے زمین پر پھیلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت محمدﷺ تک کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کو مبعوث فرمایا اور اس سب کو یہی فریضہ سونپا کہ وہ خالق ومخلوق کے ما بین عبودیت کا حقیقی رشتہ استوار کریں۔ انبیاء کے بعد چونکہ شریعت محمدی قیامت تک کے لیے تھی اس لیے نبیﷺ کے بعد امت محمدیہ کے علماء اور نامور شخصیات نے اس فریضے کی ترویج کی۔ زیرِ تبصرہ کتاب چند عظیم شخصیات کے تعارف وحالات زندگی پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں چودہ نامور شخصیات کو ذکر کیا گیا ہے۔ ان شخصیات کے تعارف کے ساتھ ساتھ ان کے عہد کی تاریخ کو بھی کسی حد تک بیان کیا گیا ہے اور ان کے کارناموں کابھی ذکر ہے۔ کتاب کا اسلوب اور زبان سلیس تو ہے مگر اس میں تاریخی کتب کے حوالے کا کوئی اہتمام نہیں کیا گیا جسے ہم اس کتاب کا نقص کہہ سکتے ہیں۔ یہ کتاب’’ آسمان علم کے درخشندہ ستارے ‘‘ ڈاکٹر سعید الرحمان بن نور حبیب کی مرتب کردہ ہے۔آپ تصنیف وتالیف کا عمدہ شوق رکھتے ہیں‘ اس کتاب کے علاوہ آپ کی اور کتب بھی ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤلف وجملہ معاونین ومساعدین کو اجر جزیل سے نوازے اور اس کتاب کو ان کی میزان میں حسنات کا ذخیرہ بنا دے اور اس کا نفع عام فرما دے۔(آمین)( ح۔م۔ا )
مزید مطالعہ۔۔۔
علامہ ابن خلدون 1332ء تیونس میں پیدا ہوئے۔ ابن خلدون مورخ، فقیہ، فلسفی اور سیاستدان تھے۔ مکمل نام ابوزید عبدالرحمن بن محمد بن محمد بن خلدون ولی الدین التونسی الحضرمی الاشبیلی المالکی ہے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد تیونس کے سلطان ابوعنان کا وزیر مقرر ہوا۔ لیکن درباری سازشوں سے تنگ آکر حاکم غرناطہ کے پاس چلا گیا۔ یہ سر زمین بھی راس نہ آئی تو مصر آگیا۔ اور الازھر میں درس و تدریس پر مامور ہوا۔ مصر میں اس کو مالکی فقہ کا منصب قضا میں تفویض کیا گیا۔اسی عہدے پر 74سال کی عمر میں وفات پائی اور اسے قاہر ہ کے قبرستان میں دفن کیاگیا لیکن زمانے کی دست برد سے اس کی قبر کا نشان تک مٹ گیا۔ ابن خلدون کو تاریخ اور عمرانیات کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ ابن خلدون نے بہت سے موضوعات پر قلم اٹھایا ہے اور مختلف علوم وفنون کے متعلق چھوٹی بڑی کئی کتب تصنیف کیں۔ا س کی شہرت کی بڑی وجہ اس کی تاریخ ’’العبر‘‘ ہےاس کی تاریخ کا پورا نام ’’کتا ب العبر ودیوان المبتدا والخبر فی ایام العرب والعجم والبربر ومن عاصرھم من ذوی السلطان الاکبر ‘‘ ہےاس کتاب میں ابن خلدون نے ہسپانوی عربوں کی تاریخ لکھی تھی۔ جو مقدمہ ابن خلدون کے نام سے مشہور ہے۔ یہ تاریخ، سیاست ، عمرانیات ، اقتصادیات اور ادبیات کا گراں مایہ خزانہ ہے۔مقدمہ ابن خلدون درحقیقت اس کےزمانۂ تالیف تک کے انسانی علوم اور خیالات پر سب سے پہلا تبصرہ اور تاریخ کےواقعات کو سائنس بنانے کی سب سے پہلی کوشش اور اقتصاد اور سوشیالوجی پر ایک فن کی حیثیت سے سب سے پہلی انسانی نگاہ ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’&rs...
فلسفہ یونانی لفظ فلوسوفی یعنی حکمت سے محبت سے نکلا ہے۔ فلسفہ کو تعریف کے کوزے میں بند کرنا ممکن نہیں، لہذا ازمنہ قدیم سے اس کی تعریف متعین نہ ہوسکی۔فلسفہ علم و آگہی کا علم ہے، یہ ایک ہمہ گیر علم ہے جو وجود کے اغراض اور مقاصد دریافت کرنے کی سعی کرتا ہے۔ افلاطون کے مطابق فلسفہ اشیاء کی ماہیت کے لازمی اور ابدی علم کا نام ہے۔ جبکہ ارسطو کے نزدیک فلسفہ کا مقصد یہ دریافت کرنا ہے کہ وجود بذات خود اپنی فطرت میں کیا ہیں۔ کانٹ اسے ادراک و تعقل کے انتقاد کا علم قرار دیتا ہے۔فلسفہ کو ان معنوں میں ’’ام العلوم‘‘ کہہ سکتے ہیں کہ یہ موجودہ دور کے تقریباً تمام علوم کا منبع و ماخذ ہے۔ ریاضی، علم طبیعیات، علم کیمیا، علم منطق، علم نفسیات، معاشرتی علوم سب اسی فلسفہ کے عطایا ہیں۔پانی کے اجزائے ترکیبی عناصر (آکسیجن، ہائیڈروجن) معلوم کرنا سائنس ہے اور یہ دریافت کرنا کہ کیا اس ترکیب اور نظام کے پیچھے کوئی دماغ مصروف عمل ہے ؟ فلسفہ ہے ۔ اقوام عالم کے عروج و زوال پر بحث کرنا تاریخ ہے اور وہ قوانین اخذ کرنا جو عروج و زوال کا باعث بنتے ہیں ۔ فلسفہ ہے ۔ فلسفی کائناتی مسائل کی حقیقت تلاش کرتا اور اقدار و معانی کا مطالعہ کرتا ہے ۔ افلاطون کہتا ہے کہ فلسفہ تلاش حقیقت کا نام ہے ۔ رواقیہ کے ہاں علم ، نیکی ، فضیلت اور ایسی دانش حاصل کرنے کا نام فلسفہ ہے جو خدائی مشیت سے ہم آہنگ کر دے ۔ زیر تبصرہ کتاب "ابن رشد اور ابن خلدون، مذہب، فلسفہ اور سماجیات" محترم ڈاکٹر عبید اللہ فہد فلاحی صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے امام ابن رشد اور امام ابن خلدون کے...
سیدنا یونس کا واقعہ جس کا کچھ حصہ تو خود قرآن میں مذکور ہے اور کچھ روایاتِ حدیث و تاریخ سے ثابت ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت یونس کی قوم عراق میں موصل کے مشہور مقام نینوی ٰمیں بستے تھے، ان کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت یونسکو بھیجا، انھوں نے ایمان لانے سے انکار کیا،اللہ تعالیٰ نے یونس کو حکم دیا کہ ان لوگوں کو آگاہ کردو کہ تین دن کے اندر اندر تم پر عذاب آنے والا ہے، حضرت یونس نے قوم میں اس کا اعلان کردیا، قوم یونس نے آپس میں مشورہ کیا تو اس پر سب کا اتفاق ہوا کہ ہم نے کبھی یونس کو جھوٹ بولتے نہیں دیکھا اس لئے ان کی بات نظر انداز کرنے کے قابل نہیں، مشورہ میں یہ طے ہوا کہ یہ دیکھا جائے کہ یونس رات کو ہمارے اندر اپنی جگہ مقیم رہتے ہیں تو سمجھ لو کہ کچھ نہیں ہوگا، اور اگر وہ یہاں سے کہیں چلے گئے تو یقین کر لو کہ صبح کو ہم پر عذاب آئے گا، حضرت یونس رات کو اس بستی سے نکل گئے، صبح ہوئی تو عذابِ الٰہی ایک سیاہ دھوئیں اور بادل کی شکل میں ان کے سروں پر منڈلانے لگا اور فضاء آسمانی سے نیچے ان کے قریب ہونے لگا تو ان کو یقین ہوگیا کہ اب ہم سب ہلاک ہونے والے ہیں، یہ دیکھ کر حضرت یونس کو تلاش کیا کہ ان کے ہاتھ پر مشرف بایمان ہوجائیں اور پچھلے انکار سے توبہ کرلیں مگر یونس کو نہ پایا تو خود ہی اخلاصِ نیت کے ساتھ توبہ و استغفار میں لگ گئے، بستی سے ایک میدان میں نکل آئے، عورتیں بچے اور جانور سب اس میدان میں جمع کردئے گئے، ٹاٹ کے کپڑے پہن کر عجز و زاری کے ساتھ اس میدان میں توبہ کرنے اور عذاب سے پناہ مانگنے میں اس طر... محدث کتب لائبریری تاریخ تذکرہ مشاہیر تمام کتب
برصغیر کے مسلمانوں نے حصول پاکستان کی جد و جہد میں جس ضبط و نظم، خلوص، ایثار اور قربانی کا عملی مظاہرہ کیاہے وہ یقینا ہماری تاریخ کا ایک ایسا درخشندہ باب ہے جو ےنے والی نسلوں کے لئے مشعلے راہ کا کام دیتا رہے گا۔ یہ تریخی ورثہ ایک ایسا نادر سرمایہ ہےجس کی تانباکی ہر زمانے میں روشنی کے مینار کا کام دے گی۔ اس سرمائے کا تحفظ ہمارا قومی فریضہ ہے۔اگرچہ تحریک پاکستان پر مختلف زاویہ ہائے نظر سے کتابیں لکھی جا چکی ہیں لیکن ان نامور خواتین کے حالات ابھی تک زیور طبع سے آراستہ نہیں ہو سکے جنہوں نے تحریک آزادی میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاریخی حقائق اس امر کے متقاضی تھے کہ قوم کی اُن مایہ ناز خواتین کی جدو جہد آزادی اور سماجی وملّی خدمات کو ایک جامع اور مبسوط کتاب کی شکل میں محفوظ کر کے تاریخی ذمہ داریوں کو پورا کیا جائے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ پاکستان کی نامور خواتین‘‘ عزیز جاوید کی ہے جس میں کہ قوم کی اُن مایہ ناز خواتین کی جدو جہد آزادی اور سماجی وملّی خدمات کو ایک جامع اور مبسوط کتاب کی شکل میں محفوظ کر کے تاریخی ذمہ داریوں کو پورا کیا گیا ہے۔اس کتاب کا مطالعہ یقینا نئی پود کے لئے فکر و نظر کے نئے زاویے پیدا کرنے میں مدد دے گا۔ ہم مصنف اور دیگر ساتھیوں کے لئے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی محنتوں اور کاوشوں کو قبول فرمائے ۔آمین۔ طالب دعا: پ،ر،ر
آج کے بچے کل کے بڑے ہوتے ہیں، اس لئے زندہ اور باشعور قومیں اپنے نونہالوں کی تربیت کا آغاز ان کے بچپن ہی سے کردیتی ہیں۔یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ بچوں کو فطری طور پر کہانیاں سننے اور کہانیاں پڑھنے کا بہت شوق ہوتا ہے۔اس لئے کہانیاں بچوں کی سیرت وکردار کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی بچوں کے لئے لکھی گئی کتابوں کا سیلاب آیا ہوا ہے،لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان میں سے بیشتر کتابیں چڑیلوں،جانوروں،جاسوسوں،چوروں اور ڈاکوؤں وغیرہ کی فرضی داستانوں سے بھر پور ہوتی ہے۔ان کو پر کشش بنانے کے لئے تصویروں اور عمدہ گیٹ اپ کا سہارا لیا جاتا ہے۔یہ دلچسپ تو ہوتی ہیں لیکن بچوں کے ذہنوں پر کوئی اچھا اور مفید اثر نہیں ڈالتی ہیں،الٹا ان کے خیالات اور افکار کو گدلا کرنے کا سبب بنتی ہیں۔چنانچہ اس امر کی شدید ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ بچوں کے ایسی کتب لکھی جائیں جو مفید ہونے کے ساتھ ان کی تربیت کا بھی ذریعہ ہوں۔ زیر تبصرہ کتاب "جستجو کا سفر" محترم نعیم احمد بلوچ صاحب کی تصنیف ہے ،جس میں انہوں نے اسی کمی کو پورا کرتے ہوئے ایک منفرد اور کہانی کے انداز میں ہمارے جد امجد سیدنا آدم کی تخلیق کے قصےکو بیان کیاہے، اور یہ کتابچہ اس کا دوسرا حصہ ہے۔یہ کتاب پاکستان کے معروف عالمی طباعتی ادارے مکتبہ دارالسلام کی طرف سے شروع کئے گئے سلسلے واقعات انبیاء کی دوسری کڑی ہے۔اس کتاب میں مولف موصوف نے سیدنا آدم اور ان کی تخلیق کے قصے کو بیان کیا ہے، اور اس موقف کا سختی سے رد کیا ہے کہ انسان پہلے بندر وغیرہ تھا۔مکتبہ دار السل...
انسانی زندگی کے آخری لمحات کوزندگی کے درد انگیز خلاصے سے تعبیر کیا جاتا ہے اس وقت بچپن سےلے کر اس آخری لمحے کےتمام بھلے اور برے اعمال پردۂ سکرین کی طرح آنکھوں کے سامنے نمودار ہونے لگتے ہیں ان اعمال کے مناظر کو دیکھ کر کبھی تو بے ساختہ انسان کی زبان سےدرد وعبرت کےچند جملے نکل جاتے ہیں اور کبھی یاس وحسرت کےچند آنسوں آنکھ سےٹپک پڑتے ہیں ۔اچھی موت اور خاتمہ بالایمان بہت بڑی دولت ہے ۔بالخصوص حالت سجدہ کی موت بڑی خوش نصیبی اور سعادت کی بات ہے ۔کیونکہ سجدہ دعا کی قبولیت کا محل ہے ۔ کتنا خوش نصیب ہے وہ شخص جو سجدے میں اپنے رب سے گناہوں کی معافی مانگتا ہوا ،رب کی انابت کرتا ہوا اور اس کی طرف اپنے فقر کا اظہار کرتا ہوا فوت ہوجائے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ جوحالت سجدہ میں وفات پاگئے ‘‘ محترم جناب موہب الرحیم کی مرتب شدہ ہے ۔مرتب موصوف نے تاریخ اور رجال کی کی متعدد کتب سے استفادہ کر کے ایسے لوگوں کااس کتاب میں بحوالہ تذکرہ کیا ہے جو جالت سجدہ میں اپنے خالق حقیقی سےجاملے۔اولاً یہ کتاب نو اقساط میں ہفت روزہ الاعتصام میں شائع ہوئی بعد بعد ازاں اسے کتابی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔ فاضل مرتب نے شخصیات کے تراجم کوذکرنے سے قبل سجدے کی فضیلت اورسجدے میں فوت ہونے والے کا شرعی حکم بیان کردیا ہےتاکہ موضوع کی افادیت میں اضافہ ہوسکے ۔(م۔ا)
صفحہ 2 کا 1
محدث لائبریری کی اپ ڈیٹس بذریعہ ای میل وصول کرنے کے لئے ای میل درج کر کے سبسکرائب کے بٹن پر کلک کیجئے۔
0092-42-35866396، 35866476، 35839404
0092-423-5836016، 5837311
library@mohaddis.com
بنک تفصیلات کے لیے یہاں کلک کریں