عالم انسانیت آج اکیسویں صدی کا جشن منانے میں مصروف ہے جب کہ انسانیت منہ چھپائے ماری ماری پھر رہی ہے۔ روئے زمین کا کوئی خطہ اسے پناہ دینے پر آمادہ نہیں۔ ہر طرف قتل وغارت‘ فتنہ وفساد اور وجل وفریب کے طوفان پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ امن‘ چین اور سکون نام کی کوئی چیز انسانی دنیا میں نظر نہیں آ رہی۔ عقل انسانی کے تراشیدہ قوانین اور اصول حیات انسان کی اجڑی بستیوں کو آباد کرنے سے قاصر ہیں۔ بے خدا ازموں اور بے روح نظریات کے علمبردار ہمارے قصر حیات کے دکھ درد دور کرنے سے عاجز ہیں۔ امت مسلمہ جسے اللہ عزوجل نے بہترین امت کے لقب سے نوازا تاکہ وہ اسلام کے قوانین کو روئے زمین پر نافد کرکے امن وسکون کا گہوارا بنائیں وہ امت خود اندھیروں میں بھٹک رہی ہے۔زیرِ تبصرہ کتاب میں انہی تعزیرات اسلامیہ کو بیان کیا گیا ہےاور یہ کتاب اصلاًعربی زبان میں ہے جس کا عنوان’العقوبات فی الاسلام‘ تھا جسے طارق اکیڈمی فیصل آباد نے اردو زبان میں ٹرانسلیٹ کیا۔ ترجمہ نہایت عمدہ اور سلیس ہے۔ اس میں حدود وتعزیرات کی تعریف سے لے کر تمام تعزیزات وحدود کو کتاب کی زینت بنایا گیا ہے اور اسلام کے عدالتی نظام کو لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی عظیم کاوش ہے۔ اس میں حوالہ جات بھی دیے گئے ہیں۔ کتاب کا اسلوب نہایت عمدہ‘سادہ اور عام فہم ہے۔ یہ کتاب’’ اسلام کا نظام تعزیرات ‘‘ عبد الرحمن عبد العزیز الداؤد کی مرتب کردہ ہے۔آپ تصنیف وتالیف کا عمدہ شوق رکھتے ہیں‘ اس کتاب کے علاوہ آپ کی درجنوں کتب اور بھی ہیں۔ دعا ہے کہ الل...
مزید مطالعہ۔۔۔
حدوداللہ سے مراد وہ امور ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے حلت و حرمت بیان کردی ہے اور اس بیان کے بعد اللہ کے احکام اور ممانعتوں سے تجاوز درست نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حددو سے تجاوز کرنے والے کو اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ پر ظلم کرنے والا قرار دیا ہے اور ان کے لیے عذاب مہین کی وعید سنائی ہے۔ اسلام کایہ نظام جرم وسزا عہد رسالت اورعہد خلافت راشدہ میں بڑی کامیابی سے قائم رہا جس کے بڑے فوائد وبرکات تھے۔ عصر حاضر کے بعض سیکولرذہنیت کےحاملین نے اسلامی حدود کو وحشیانہ اور ظالمانہ سزائیں کہا ہے۔ (نعوذ باللہ من ذالک) اور بعض اسلام دشمنوں نےیہ کہا کہ اسلام کانظام جرم وسزا عہد رسالت وخلافت راشدہ کے بعد کبھی کسی ملک میں کامیبابی سے نہیں چل سکا۔ زیر تبصرہ کتا ب ’’تاریخ نفاذ حدود‘‘ ڈاکٹر نور احمد شاہتاز کی تحقیقی کاوش ہے فاضل مصنف نے اس کتاب میں تاریخی حولوں سے ثابت کیا ہے۔ کہ یہ نظام گزشتہ چودہ صدیوں میں ہر ملک وہر خطہ اسلامی میں نہایت کامیابی سے نافذ رہا اور اس کی برکات سے طویل عرصہ تک نسل انسانی نے استفادہ کیا۔ نیز فاضل مصنف نے شرائع سابقہ میں مقرر سزاؤں کا اسلامی سزاؤ ں سے تقابلی جائزہ کر کے معترضین ومعاندین کے منہ بند کردیئے ہیں اور یہ ثابت کیا ہے کہ تمام شرائع سماویہ وادیان ارضیہ و عارضیہ میں اسلامی سزاؤں کے مماثل یا ان سے بھی سخت بہت معمولی جرائم پر دینے کا رواج رہا ہے ۔یہ کتاب اپنے موضوع میں تحقیقی وتاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ (م۔ا)
حدوداللہ سےمراد وہ امور ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے حلت وحرمت بیان کردی ہے اوراس بیان کے بعد اللہ کے احکام اورممانعتوں سے تجاوز درست نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حددو سے تجاوز کرنے والے کو اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ پر ظلم کرنے والا قرار دیا ہے اور ان کے لیے عذاب مہین کی وعید سنائی ہے ۔اسلام کایہ نظام جرم وسزا عہد رسالت اورعہد خلافت راشدہ میں بڑی کامیابی سے قائم رہا جس کے بڑے فوائد وبرکات تھے ۔ اسلامی حکومت میں اسلامی حدود کا نفاذ نہ تو کسی حکمران کی صوابدید پر ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی حکمران انہیں سیاسی انتقام کا ذریعہ بنا سکتا ہے۔یہ حدود تو اس رب ذوالجلال والاکرام نے عائد کی ہیں جو اپنے بندوں پر ساری کائنات میں سب سے زیادہ مہربان ہے۔ان حدود کے نفاذ کا بڑا مقصد اسلامی حکومت میں بسنے والے ہر فرد کی عزت وآبرو اور جان ومال کا تحفظ اور انسانیت کی تکریم ہے نہ کہ توہین۔پھر یہ کہ یہ حدود اندھا دھند نافذ نہیں کر دی جاتیں بلکہ ملزم پر فرد جرم عائد کرنے کے لئے شریعت اسلامیہ میں کئی شرائط،لوازم،حد درجہ احتیاط اور کڑا معیار شہادت مقرر ہے۔اسلامی حدود کے نفاذ کا یہ مطلب نہیں کہ ملک بھر میں سب کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے جائیں گے اور بدکاری کے معمولی شبے پر لوگوں کو سنگسار کر دیا جائے گا۔یہ محض مغرب زدہ لوگوں کا پروپیگنڈا اور اسلام دشمنی ہے۔ ۔زیر تبصرہ کتاب " قانون قصاص ودیت 2003 "محترم میاں مسعود احمد بھٹہ ایڈووکیٹ صاحب کی ک... حدود و تعزیرات
اسلام سراپا رحمت اور شفقت ہے، اس مذہب میں عدل واحسان کی بار ہا تاکید کی گئی ہے اور یہی اس مذہب کی روح ہے، ظلم وزیادتی، ناحق مارپیٹ، ستانا اور کسی کو خواہ مخواہ پریشان کرنا، اس مذہب میں جائز نہیں، اسلام کی نظر میں مرد وعورت امیر وغریب، محتاج اور غنی سب برابر ہیں، کسی کو کسی پر فو قیت حاصل نہیں؛ اس لیے کسی امیر کو غریب کے ساتھ ناروا سلوک کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور نہ ہی کسی صاحبِ طاقت کو بے کس اور کمزوروں پر اپنی طاقت استعمال کرنے کا حق دیا گیا ہے؛ یہاں تک کہ بے زبان جانوروں پر شفقت اور رحمت کا حکم دیا گیا ہے، رسولِ اکرم ﷺ نے اپنے مختلف ارشادات کے ذریعہ جانوروں پر ظلم وزیادتی سے منع فرمایا ہے۔جانور کو مثلہ کرنے، اس پر نشانہ بازی کرنے اور طاقت سے زیادہ بوجھ لادنے سے منع کیا ہے حتیٰ کہ س کی بھی ممانعت ہے کہ ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح کیا جائے؛ تاکہ اسے اپنے ذبح کیے جانے کا احساس اور اس کی تکلیف نہ ہو، اسلام میں جب ایک جانور کے ساتھ اس طرح حسنِ سلوک کی تاکید ہے تو انسان کے ساتھ رحم وکرم کی کس قدر تاکید ہو گی، انسانیت کا احترام جانور کی بہ نسبت زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ جانی دشمنوں کے ساتھ بھی کوئی ایسا معاملہ نہیں کیا جائے گا جو انسانیت کے خلاف ہو، جیسے ان کا مثلہ کرنا، آگ میں جلانا، پیاس سے تڑپانا، غیر انسانی سزادینا وغیرہ ۔ایک مرتبہ رسولِ اکرم ﷺکے سامنے سے ایک یہودیکا جنازہ گزرا، آپ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے جب جنازہ پر نظر پڑی تو آپ ﷺ کھڑے ہو گئے، صحابہٴ کرام نے سوال کیا یا رسول اللہ !یہ تو ایک یہودی اور غیر مسلم کا جنازہ...
صفحہ 1 کا 1
محدث لائبریری کی اپ ڈیٹس بذریعہ ای میل وصول کرنے کے لئے ای میل درج کر کے سبسکرائب کے بٹن پر کلک کیجئے۔
0092-42-35866396، 35866476، 35839404
0092-423-5836016، 5837311
library@mohaddis.com
بنک تفصیلات کے لیے یہاں کلک کریں