محترم ڈاکٹر ذاکر نائیک ﷾ہندوستان کے ایک معروف مبلغ اور داعی ہیں۔آپ اپنے خطبات اور لیکچرز میں اسلام اور سائنس کے حوالے سے بہت زیادہ گفتگو کرتے ہیں ،اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے جو کچھ بتا دیا تھا ،آج کی جدید سائنس اس کی تائید کرتی نظر آتی ہے۔اور یہ کام وہ زیادہ تر غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دیتے وقت کرتے ہیں ،تاکہ ان کی عقل اسلام کی حقانیت اور عالمگیریت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔اسلام اگرچہ سائنس کی تائید کا محتاج نہیں ہے ،اور اس کا پیغام امن وسلامتی اتنا معروف اور عالمگیر ہے کہ اسے مسلم ہو یا غیر مسلم دنیا کا ہر آدمی تسلیم کرتا ہے۔لیکن میرے خیال میں سائنس سے اسلام کی تائید میں غیر مسلموں کو کوئی عقلی دلیل پیش کرنے میں کوئی برائی والی بات بھی نہیں ہے۔لیکن بعض احباب ان کے اس طرز عمل سے نالاں ہیں ۔ان کے نزدیک اسلام کے پیغام میں اتنی زیادہ قوت موجود ہے کہ ہمیں سائنس کی تائید وغیرہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔زیر تبصرہ کتاب " اسلام اور جدید سائنس نئے تناظر میں (ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خطبات کی روشنی میں)" بھی اسی ضمن میں لکھی گئی ہے۔جو محترم محمد ظفراقبال صاحب کی کاوش ہے۔ ان کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ جس طرح مغرب میں عیسائیت اور سائنس کے اجتماع سے لوگ عیسائیت سے بیزار ہو گئے اور انہوں نے سائنس کو اپنا مذہب بنا لیا۔بہر حال یہ ڈاکٹر ذاکر نائیک﷾ کے اس طریقہ کار پر ایک تحقیقی مقالہ ہے ،جس میں صحت اور ضعف دونوں کا احتمال ہو سکتاہے۔اہل علم سے گزارش ہے کہ وہ کتاب کا مطالعہ کرنے کے ب...
مزید مطالعہ۔۔۔
اخلاق ان صفات اور افعال کو کہا جاتا ہے جو انسان کی زندگی میں اس قدر رچ بس جاتے ہیں کہ غیر ارادی طورپربھی ظہور پذیر ہونے لگتے ہیں۔ بہادر، فطری طور پر میدا ن کی طرف بڑھنے لگتا ہے اور بزدل، طبیعی انداز سے پرچھائیوں سے ڈرنے لگتا ہے۔ کریم کا ہاتھ خود بخود جیب کی طرف بڑھ جاتا ہے اور بخیل کے چہرے ہر سائل کی صورت دیکھ کر ہوائیاں اڑنے لگتی ہیں۔ اسلام نے غیر شعوری اور غیر ارادی اخلاقیات کو شعوری اور ارادی بنانے کا کام بھی انجام دیاہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان ان صفات کو اپنے شعور اور ارادہ کے ساتھ پیدا کرے تاکہ ہر اہم سے اہم موقع پر صفت اس کا ساتھ دے ورنہ اگر غیر شعوری طور صفت پیدا بھی کرلی ہے تو حالات کے بدلتے ہی اس کے متغیر ہو جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ مثال کے طور پر ان تذکروں کو ملاحظہ کیا جائے جہاں اسلام نے صاحب ایمان کی اخلاقی تربیت کاسامان فراہم کیا ہے اور یہ چاہا ہے کہ انسان میں اخلاقی جوہر بہترین تربیت اور اعلیٰ ترین شعور کے زیر اثر پیدا ہو۔اللہ تعالی نے قرآن مجید کی سورۃ الفرقان کے آخری رکوع میں عباد الرحمان کی بارہ صفات ذکر کی ہیں ،جو گویا بارہ مستقل مضامین ہیں۔ان صفات میں سے"زمین پر عاجزی سے چلنا ، جاہلوں سے اعراض کرنا ، راتوں کو عبادت کرنا، جہنم کے عذاب سے پناہ مانگنا ، خرچ کرنے میں اعتدال سے کام لینا ، نہ فضول خرچی کرنا اور نہ ہی بخل کرنا ، شرک سے اجتناب کرنا ، قتل ناحق سے بچنا ، زنا اور بدکاری سے پرہیز کرنا، جھوٹی گواہی سے احتراز کرنا ، بری مجالس سے پہلوتہی کرنا، کتاب اللہ سے متاثر ہونا ، بیوی بچوں اور اپنے لئے ہدایت کی دعا کرنا "...
جدید صنعتی اور فکری انقلاب نے جو بہت سے مسائل پیدا کر دیے ہیں ان میں ایک جدید دور میں پیدا ہونے والے مسائل کا فقہی اور شرعی حل بھی ہے ۔ جو جدید ایجادات اور نئے معاملات کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں ۔ ان مسائل کا حل کرنا ایک مشکل اور دشوار کام ہے ۔ اس لئے کہ ان کے لیے قرآن و حدیث اور فقہ کے قدیم ذخیرہ میں ان کی نظائر اور ان سے قریب ترین صورتیں تلاش کرنی ہوتی ہیں ۔ احکام کی علتوں اور اسباب پر غور کرنا ہوتا ہے ۔ اور اپنے زمانہ کے عرف اور رواج کو بھی سامنے رکھنا پڑتا ہے ۔ اس مشکل اور دشوار کام کو حل کرنا علما کے ذمہ ہے ۔ اور وہی ان کے صحیح حل تلاش کرنے کے اہل ہیں ۔ چناچہ ہر زمانہ کے اہل علم اور اہل افتا نے اپنے اپنے دور کے مسائل حل کیے ہیں ۔ موجودہ دور میں بھی ایسی متعدد کوششیں ہو چکی ہیں ۔ زیر نظرکتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ مؤلف نے ایسے تمام جدید مسائل کو جن کا تعلق عبادات ، معاشرت اور معاملات اور اجتماعی مسائل سے ہے یکجا کر دیا ہے ۔ اور نہائت اختصار و ایجاز کے ساتھ ، سہل ، عام فہم زبان اور دل نشین اسلوب میں مسائل پر گفتگو کی ہے اور ہر مسلہ مستند کتابوں سے حوالے اور نظائر کی روشنی میں لکھا گیا ہے ۔ مصنف کی قابل تحسین بات یہ ہے کہ انہوں نے زیادہ سے زیادہ اختلاف سے بچنے کی کوشش کی ہے ۔ اور جہاں علما کی رائے سے اختلاف کیا ہے وہاں اپنی رائے فتوی کی بجائے تجویز کے لب و لہجہ میں پیش کی ہے ۔ نیز اس کے وجوہ دلائل بھی بیان کر دئیے ہیں ۔( ع۔ح)
ملوکیت یعنی بادشاہت کے معائب و نقائص اور اس کی ہلاکت خیزیوں کو ابھار کر، جمہوریت کا "الحمرا" تعمیر کرنےوالوں میں ایک نام مودودی صاحب کا بھی ہے۔ جسے انہوں نے "خلافت و ملوکیت" نامی کتاب لکھ کر خوب واضح کیا ہے۔ جس میں مودودی صاحب نے پہلے تو تاریخی روایات کے متفرق جزئی واقعات کو چن چن کر جمع کیا ، پھر انہیں مربوط فلسفہ بنا کر پیش کیا، جزئیات سے کلیات کو اخذ کر لیا اور پھر ان پر ایسے جلی اور چبھتے ہوئے عنوانات صحابہ کرام کی طرف منسوب کر کے جما دئے کہ جنہیں آج کی صدی کا فاسق ترین شخص بھی اپنی طرف منسوب کرنا پسند نہ کرے۔ یہ نہ تو دین و ملت کی کوئی خدمت ہے، نہ اسے اسلامی تاریخ کا صحیح مطالعہ کہا جا سکتا ہے۔ البتہ اسے تاریخ سازی کہنا بجا ہوگا۔ یہ بات طے ہے کہ جو حضرات اپنے خیال میں بڑی نیک نیتی، اخلاص اور بقول ان کے وقت کے اہم ترین تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے قبائح صحابہ کو ایک مرتب فلسفہ کی شکل میں پیش کرتے ہیں اور اسے "تحقیق" کا نام دیتے ہیں، انہیں اس کا احساس ہو یا نہ ہو لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس تسویدِ اوراق کا انجام اس کے سوا کچھ نہیں کہ جدید نسل کو دین کے نام پر دین سے بیزار کر دیا جائے۔ اور ہر ایرے غیرے کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تنقید کی کھلی چھٹی دے دی جائے۔
مودودی صاحب کی اس کتاب نے صحابیت کے قصر رفیع میں جو نقب زنی کی ہے خصوصاً حضرت عثمان و معاویہ رضی اللہ عنہم کا جو کردار اس کتاب میں پیش کیا گیا ہے، وہ لائق مذمت ہے۔ ان کی اس کتاب کی تردید میں اگرچہ متعدد کتابیں اور مضامین شائع ہو چکے ہیں لیکن حافظ صلاح الدین یوسف صاحب کی زیر تبصرہ کا...
صفحہ 1 کا 1
محدث لائبریری کی اپ ڈیٹس بذریعہ ای میل وصول کرنے کے لئے ای میل درج کر کے سبسکرائب کے بٹن پر کلک کیجئے۔
0092-42-35866396، 35866476، 35839404
0092-423-5836016، 5837311
library@mohaddis.com
بنک تفصیلات کے لیے یہاں کلک کریں