مزید مطالعہ۔۔۔
خدمتِ قرآن مجید کے طریقے بے شمار ہیں ۔۔اہل علم نے مختلف انداز میں قرآن مجید کی خدمت کی ہے ۔ ۔قرآن مجید اصلاً ایک کتاب ہدایت اور دستورالعمل ہے ۔ لیکن ضمناً اس میں بہت سے علمی مسائل پربھی روشنی ڈالی گئی ہے ۔اور عربی زبان وادب کے علاوہ مختلف علوم وفنون کے بھی کتنے ہی عنوانات اس سے منور ہوجاتے ہیں۔یعنی قرآن مجید میں جہاں مختلف علوم وفنون کاذکر موجود ہے وہاں قرآن مجید میں حیوانات کےذکر بھی خاصی تعداد میں آیا ہے ۔زیر تبصرہ کتاب ’’ حیوانات قرآنی‘‘ مولانا عبدالماجد دریاآبادی کی قرآن مجید میں بیان گئے جانوروں کے متعلق جامع کتاب ہے ۔ جس میں انہوں نے قرآن مجید میں مذکور تمام جانوروں کے ناموں کو بہ ترتیب حروف تہجی اس میں یکجا کرنے کےساتھ ساتھ عہد قدیم اور عہد جدید میں ان جانوروں کے متعلق جو معلومات مل سکیں انہیں بھی اس میں جمع کردیا ہے۔گویا قرآن مجید میں جن حیوانات کا ذکر آیا ہےان کے اسماء صفات ،افعال ومتعلقات کے حوالے سےیہ کتاب ایک جامع لغت ہے (م۔ا)
قرآن مجید ایک کامل دستور حیات اورانسانیت کو جینے کا ڈھنگ سکھاتا ہے قرآن صرف انہی کےلیے منہج وستور بن سکتا ہے جواس کے معانی ومطالب کو سمجھ سکیں۔ اس کے معانی سے واقفیت صرفی ونحوی اعتبار سے قرآن کے جاننے پر موقوف ہے لغت عرب کے قواعد کو جانے بغیر اگر کوئی قرآن سمجھنے کی کوشش کرے گا تو بجائے ہدایت کے گمراہی اور کجر وی کا شکار ہوسکتا ہے ایسی لغزشوں سے بچانے کےلیے علمائے عجم نے بھی قرآن کے ترجمہ وتفاسیر اور اعراب سے متعلق کتابیں لکھیں ہیں ۔
زیر نظر کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جامعہ ام القراء مکہ مکرمہ کے انجمن تدریس کےرکن ڈاکٹر عبداللہ عباس الندوی نےانگریزی دان طبقہ کےلیے عربی سے انگلش میں تصنیف فرمائی اورافادہ عام کےلیے ریٹائرڈ پروفیسر عبدالرزاق فاضل جامعہ ریاض نےاس کا اردو ترجمہ کیا ہے ۔مذکورہ مقصد کو پورا کرنے کےلیے اس کتاب میں قرآن کریم کےکلمات والفاظ کی صرفی تصریف اور نحوی ترکیب کے ساتھ لغوی معنی کو بھی بیان کیا گیا ہے۔انگریزی نسخہ میں جو انگلش حوالے تھے ترجمہ میں ان کو حذف کیا گیا ہےجبکہ سورتوں اور آیتوں کی نشاندہی نمبروں سے کی گئی ہے ترجمہ سلیس اور عام فہم بنانے کی حتی المقدور سعی کی گئی ہے انگریزی متن کے بعض مختلف فیہ مقامات پر ترجمہ میں توضیحی
کسی بھی قوم کو مجموعی طور پر دین سے روشناس کرانے، تہذیب وثقافت سے بہرہ ور کرنے اور خصائل فاضلہ وشمائلِ جمیلہ سے مزین کرنے میں اس قوم کی خواتین کا اہم، بلکہ مرکزی اور اساسی کردار ہوتا ہے اور قوم کے نونہالوں کی صحیح اٹھان اور صالح نشوونما میں ان کی ماؤں کا ہم رول ہوتا ہے۔اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ ماں کی گود بچے کا اولین مدرسہ ہے۔ اس لیے شروع ہی سے اسلام نے جس طرح مردوں کے لیے تعلیم کی تمام تر راہیں وا رکھی ہیں ان کو ہر قسم کے مفید علم کے حصول کی نہ صرف آزادی دی ہے، بلکہ اس پر ان کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔ جس کے نتیجے میں قرنِ اول سے لے کر آج تک ایک سے بڑھ کر ایک کج کلاہِ علم وفن اور تاجورِ فکر وتحقیق پیدا ہوتے رہے اور زمانہ ان کے علومِ بے پناہ کی ضیاپاشیوں سے مستنیر و مستفیض ہوتا رہا، بالکل اسی طرح اس دین حنیف نے خواتین کو بھی تمدنی، معاشرتی اور ملکی حقوق کے بہ تمام وکمال عطا کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی حقوق بھی اس کی صنف کا لحاظ کرتے ہوئے مکمل طور پر دیے؛ چنانچہ ہر دور میں مردوں کے شانہ بہ شانہ دخترانِ اسلام میں ایسی باکمال خواتین بھی جنم لیتی رہیں، جنھوں نے اطاعت گزار بیٹی، وفاشعار بیوی اور سراپا شفقت بہن کا کردار نبھانے کے ساتھ ساتھ دنیا میں اپنے علم وفضل کا ڈنکا بجایا اور ان کے دم سے تحقیق و تدقیق کے لاتعداد خرمن آباد ہوئے۔لیکن اسلام بے پردگی اور مخلوط نظام تعلیم کی ہر گز حوصلہ افزائی نہیں کرتا ہے۔جب لڑکے اور لڑکیاں دونوں ایک ساتھ تعلیم حاصل کررہے ہوں، پھر دونوں کی نشست گاہیں بھی ایک ساتھ ہوں اور ان سب پر طرفہ یہ کہ عریاں ونیم عریاں بازو...
صفحہ 1 کا 1
محدث لائبریری کی اپ ڈیٹس بذریعہ ای میل وصول کرنے کے لئے ای میل درج کر کے سبسکرائب کے بٹن پر کلک کیجئے۔
0092-42-35866396، 35866476، 35839404
0092-423-5836016، 5837311
library@mohaddis.com
بنک تفصیلات کے لیے یہاں کلک کریں